ساحل ساحل سمستی پوری

ساحل ساحل سمستی پوری

 

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے 

ساتھ چل موج صبا ہو جیسے 


لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں 

تو مجھے بھول گیا ہو جیسے 


عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا 

یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے 


موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ 

مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے 


ایسے انجان بنے بیٹھے ہو 

تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے 


ہچکیاں رات کو آتی ہی رہیں 

تو نے پھر یاد کیا ہو جیسے 


زندگی بیت رہی ہے ساحل 

ایک بے جرم سزا ہو جیسے 


                                   ساحل سمستی پوری 📚

0 Response to "ساحل ساحل سمستی پوری "

एक टिप्पणी भेजें

Ads on article

Advertise in articles 1

advertising articles 2

Advertise under the article